کبھی اک خواب ديکھا تھا وطن ميرا وطن ھو گا
سبھی آپنے يہاں ھونگے يہاں کوي غير نہ ھو گا
کھليں گے پھول سرسوں کے گلی کوچہ چمن ھو گا
اٹھيں گی جس طرف نظريں اسی جانب امن ھو گا
حقیقت خواب تھا میرا مگر تعبیر نہ نکلی
چنا نسخہ حکیموں کا مگر تاثیر نہ نکلی
میدان چنگ اترنا تھا مجھے انصاف کی خاطر
گلا دیکھا جو اپنوں کا میری شمشیر نہ نکلی
وطن چھوڑا فرھنگی نے تو ھاتھ آیا وڈیروں کے
وطن لوٹا بے رحمی سے یہ بیٹے تھے لٹیروں کے
بناھیں اپنی جاگیریں خزانہ قوم کا لوٹا
کیا مقروض ملت کو دھیے طحفے اندھیرون کے
کڑکتی دھوپ نے مارا کبھی اولے گرے مجھ پر
کبھی مارے گیے کوڑے کبھی گولے گرے مجھ پر
کبھی جرنیل کا تھپڑ کبھی جج کی پڑی گالی
سویا میں کبھی بھوکا کبھی کچھ مانگ کی کھالی‬

Leave a Reply